کسی منظر نہ کسی جسم کی عریانی سے
آنکھ حیران ہے خوابوں کی فراوانی سے
جس طرح پیاس میں پانی کا میسر آنا
میں تمھیں دیکھ رہا ہوں اُسی حیرانی سے
آگ اور تیز ہوا دل کو لُبھاتے ہیں مگر
گہے مٹی سے میں ڈرتا ہوں گہے پانی سے
باغ میں وقت بِتانے سے یہ ہوتا ہے کہ دل
جھومنے لگتا ہے نغموں کی فراوانی سے
جہاں رہتے ہیں مرے جان سے پیارے مرشد
پیار کرتا ہوں اُسی خطہِ بارانی سے
بات دنیا کو عقیدت سے بتاؤ کہ سعید
چین ملتا ہے محمدؐ کی ثنا خوانی سے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...